1 |
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo |
2 |
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں٭o ٭ یہ ترجمہ ”لا زائدہ“ کے اعتبار سے ہے۔ لا ”نفئ صحیح“ کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔ |
3 |
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی٭o ٭ یعنی آدم علیہ السلام کی ذریّتِ صالحہ یا آپ ہی کی ذات گرامی جن کے باعث یہ شہرِ مکہ بھی لائقِ قَسم ٹھہرا ہے۔ |
4 |
بیشک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے |
5 |
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟ |
6 |
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے |
7 |
کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا |
8 |
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں |
9 |
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے) |
10 |
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے |
11 |
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا |
12 |
اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo |
13 |
وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے |
14 |
یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدّ و جہد کرنا ہے) |
15 |
قرابت دار یتیم ک |
16 |
یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہے |
17 |
پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیں |
18 |
یہی لوگ دائیں طرف والے (یعنی اہلِ سعادت و مغفرت) ہیں |
19 |
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا وہ بائیں طرف والے ہیں (یعنی اہلِ شقاوت و عذاب) ہیں |
20 |
ان پر (ہر طرف سے) بند کی ہوئی آگ (چھائی) ہوگی |