26. الشُّعَرَآء

1

طا، سین، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)

2

یہ (حق کو) واضح کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں

3

(اے حبیبِ مکرّم!) شاید آپ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے

4

اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے (ایسی) نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی رہ جائیں

5

اور ان کے پاس (خدائے) رحمان کی جانب سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے رُوگرداں ہو جاتے ہیں

6

سو بیشک وہ (حق کو) جھٹلا چکے پس عنقریب انہیں اس امر کی خبریں پہنچ جائیں گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے

7

اور کیا انہوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس میں کتنی ہی نفیس چیزیں اگائی ہیں

8

بیشک اس میں ضرور (قدرتِ الٰہیہ کی) نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں

9

اور یقیناً آپ کا رب ہی تو غالب، مہربان ہے

10

اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے موسٰی (علیہ السلام) کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ

11

(یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے

12

موسٰی (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے

13

اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے)

14

اور ان کا میرے اوپر (قبطی کو مار ڈالنے کا) ایک الزام بھی ہے سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے

15

ارشاد ہوا: ہرگز نہیں، پس تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ (ہر بات) سننے والے ہیں

16

پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو: ہم سارے جہانوں کے پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں

17

(ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے

18

(فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے

19

اور (پھر) تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا جو تم نے کیا تھا (یعنی ایک قبطی کو قتل کر دیا) اور تم ناشکر گزاروں میں سے ہو (ہماری پرورش اور احسانات کو بھول گئے ہو)

20

(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)

21

پھر میں (اس وقت) تمہارے (دائرہ اختیار) سے نکل گیا جب میں تمہارے (ارادوں) سے خوفزدہ ہوا پھر میرے رب نے مجھے حکمِ (نبوت) بخشا اور (بالآخر) مجھے رسولوں میں شامل فرما دیا

22

اور کیا وہ (کوئی) بھلائی ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے (اس کا سبب بھی یہ تھا) کہ تو نے (میری پوری قوم) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا

23

فرعون نے کہا: سارے جہانوں کا پروردگار کیا چیز ہے

24

(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ) جملہ آسمانوں کا اور زمین کا اور اُس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو

25

اس نے ان (لوگوں) سے کہا جو اس کے گرد (بیٹھے) تھے: کیا تم سن نہیں رہے ہو

26

(موسٰی علیہ السلام نے مزید) کہا کہ (وہی) تمہارا (بھی) رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا (بھی) رب ہے

27

(فرعون نے) کہا: بیشک تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے

28

(موسٰی علیہ السلام نے) کہا: (وہ) مشرق اور مغرب اور اس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم (کچھ) عقل رکھتے ہو

29

(فرعون نے) کہا: (اے موسٰی!) اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور (گرفتار کر کے) قیدیوں میں شامل کر دوں گا

30

(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی واضح چیز (بطور معجزہ بھی) لے آؤں

31

(فرعون نے) کہا: تم اسے لے آؤ اگر تم سچے ہو

32

پس (موسیٰ علیہ السلام نے) اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیا وہ اسی وقت واضح (طور پر) اژدھا بن گیا

33

اور (موسٰی علیہ السلام نے) اپنا ہاتھ (بغل میں ڈال کر) باہر نکالا تو وہ اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا

34

(فرعون نے) اپنے ارد گرد (بیٹھے ہوئے) سرداروں سے کہا: بلاشبہ یہ بڑا دانا جادوگر ہے

35

یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو (کے زور) سے تمہارے ملک سے باہر نکال دے پس تم (اب اس کے بارے میں) کیا رائے دیتے ہو

36

وہ بولے کہ تو اسے اور اس کے بھائی (ہارون کے حکمِ سزا سنانے) کو مؤخر کر دے اور (تمام) شہروں میں (جادوگروں کو بلانے کے لئے) ہرکارے بھیج دے

37

وہ تیرے پاس ہر بڑے ماہرِ فن جادوگر کو لے آئیں

38

پس سارے جادوگر مقررہ دن کے معینہ وقت پر جمع کر لئے گئے

39

اور (فرعون کی طرف سے) لوگوں کو کہا گیا کہ تم (اس موقع پر) جمع ہونے والے ہو

40

تاکہ ہم جادوگروں (کے دین) کی پیروی کر سکیں اگر وہ (موسٰی اور ہارون پر) غالب آگئے

41

پھر جب وہ جادوگر آگئے (تو) انہوں نے فرعون سے کہا: کیا ہمارے لئے کوئی اُجرت (بھی مقرر) ہے اگر ہم (مقابلہ میں) غالب ہو جائیں

42

(فرعون نے) کہا: ہاں بیشک تم اسی وقت (اجرت والوں کی بجائے میرے) قربت والوں میں شامل ہو جاؤ گے (اور قربت کا درجہ اُجرت سے کہیں بلند ہے)

43

موسٰی (علیہ السلام) نے ان (جادوگروں سے) فرمایا: تم وہ (جادو کی) چیزیں ڈال دو جو تم ڈالنے والے ہو

44

تو انہوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے: فرعون کی عزت کی قسم! ہم ضرور غالب ہوں گے

45

پھر موسٰی (علیہ السلام) نے اپنا ڈنڈا ڈال دیا تو وہ (اژدھا بن کر) فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے (اپنی اصل حقیقت سے) پھیر رکھی تھیں

46

پس سارے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے

47

وہ کہنے لگے: ہم سارے جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے

48

(جو) موسٰی اور ہارون (علیہما السلام) کا رب ہے

49

(فرعون نے) کہا: تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا، بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، تم جلد ہی (اپنا انجام) معلوم کر لو گے، میں ضرور ہی تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں الٹی طرف سے کاٹ ڈالوں گا اور تم سب کو یقیناً سولی پر چڑھا دوں گا

50

انہوں نے کہا: (اس میں) کوئی نقصان نہیں، بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں

51

ہم قوی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں معاف فرما دے گا، اس وجہ سے کہ (اب) ہم ہی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں

52

اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تم میرے بندوں کو راتوں رات (یہاں سے) لے جاؤ بیشک تمہارا تعاقب کیا جائے گا

53

پھر فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دئیے

54

(اور کہا:) بیشک یہ (بنی اسرائیل) تھوڑی سی جماعت ہے

55

اور بلاشبہ وہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں

56

اور یقیناً ہم سب (بھی) مستعد اور چوکس ہیں

57

پس ہم نے ان (فرعونیوں) کو باغوں اور چشموں سے نکال باہر کیا

58

اور خزانوں اور نفیس قیام گاہوں سے (بھی نکال دیا)

59

(ہم نے) اسی طرح (کیا) اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان (سب چیزوں) کا وارث بنا دیا

60

پھر سورج نکلتے وقت ان (فرعونیوں) نے ان کا تعاقب کیا

61

پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں (تو) موسٰی (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا: (اب) ہم ضرور پکڑے گئے

62

(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ہرگز نہیں، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہِ (نجات) دکھا دے گا

63

پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، پس دریا (بارہ حصوں میں) پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا زبردست پہاڑ کی مانند ہو گیا

64

اور ہم نے دوسروں (یعنی فرعون اور اس کے ساتھیوں) کو اس جگہ کے قریب کر دیا

65

اور ہم نے موسٰی علیہ السلام کو (بھی) نجات بخشی اور ان سب لوگوں کو (بھی) جو ان کے ساتھ تھے

66

پھر ہم نے دوسروں (یعنی فرعونیوں) کو غرق کر دیا

67

بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ) کی بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے

68

اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے

69

اور آپ ان پر ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ (بھی) پڑھ کر سنا دیں

70

جب انہوں نے اپنے باپ ٭ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس چیز کو پوجتے ہوo ٭ (یہ حقیقی باپ نہ تھا، چچا تھا۔ اسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش کی تھی جس کی وجہ سے اسے باپ کہا کرتے تھے۔ اس کا نام آزر ہے جبکہ آپ کے حقیقی والد کا نام تارخ ہے۔)

71

انہوں نے کہا: ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور ہم انہی (کی عبادت و خدمت) کے لئے جمے رہنے والے ہیں

72

(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: کیا وہ تمہیں سنتے ہیں جب تم (ان کو) پکارتے ہو

73

یا وہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں

74

وہ بولے: (یہ تو معلوم نہیں) لیکن ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا تھا

75

(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: کیا تم نے (کبھی ان کی حقیقت میں) غور کیا ہے جن کی تم پرستش کرتے ہو

76

تم اور تمہارے اگلے آباء و اجداد (الغرض کسی نے بھی سوچا)

77

پس وہ (سب بُت) میرے دشمن ہیں سوائے تمام جہانوں کے رب کے (وہی میرا معبود ہے)

78

وہ جس نے مجھے پیدا کیا سو وہی مجھے ہدایت فرماتا ہے

79

اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے

80

اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے

81

اور وہی مجھے موت دے گا پھر وہی مجھے (دوبارہ) زندہ فرمائے گا

82

اور اسی سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ قیامت وہ میری خطائیں معاف فرما دے گا

83

اے میرے رب! مجھے علم و عمل میں کمال عطا فرما اور مجھے اپنے قربِ خاص کے سزاواروں میں شامل فرما لے

84

اور میرے لئے بعد میں آنے والوں میں (بھی) ذکرِ خیر اور قبولیت جاری فرما

85

اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا دے

86

اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا

87

اور مجھے (اُس دن) رسوا نہ کرنا جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے

88

جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد

89

مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا

90

اور (اس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گے

91

اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی

92

اور ان سے کہا جائے گا: وہ (بت) کہاں ہیں جنہیں تم پوجتے تھے

93

اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود اپنی مدد کرسکتے ہیں؟ (کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچالیں)

94

سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی)

95

اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہوں گی)

96

وہ (گمراہ لوگ) اس (دوزخ) میں باہم جھگڑا کرتے ہوئے کہیں گے

97

اللہ کی قسم! ہم کھلی گمراہی میں تھے

98

جب ہم تمہیں سب جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے

99

اور ہم کو (ان) مجرموں کے سوا کسی نے گمراہ نہیں کیا

100

سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے

101

اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے

102

سو کاش ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتے

103

بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے، اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے

104

اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے

105

نوح (علیہ السلام) کی قوم نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا

106

جب ان سے ان کے (قومی) بھائی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو

107

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں

108

سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

109

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف سب جہانوں کے رب کے ذمہ ہے

110

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرادری کرو

111

وہ بولے: کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی (معاشرے کے) انتہائی نچلے اور حقیر (طبقات کے) لوگ کر رہے ہیں

112

(نوح علیہ السلام نے) فرمایا: میرے علم کو ان کے (پیشہ وارانہ) کاموں سے کیا سروکار

113

ان کا حساب تو صرف میرے رب ہی کے ذمہ ہے۔ کاش! تم سمجھتے (کہ حقیقی عزت و ذلت کیا ہے)

114

اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں

115

میں تو فقط کھلا ڈر سنانے والا ہوں

116

وہ بولے: اے نوح! اگر تم (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیا جائے گا

117

(نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا

118

پس تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے اور مجھے اور ان مومنوں کو جو میرے ساتھ ہیں نجات دے دے

119

پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی

120

پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا

121

بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے

122

اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے

123

(قومِ) عاد نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا

124

جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی ھود (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو

125

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں

126

سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

127

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ، میرا اجر تو فقط تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے

128

کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار تعمیر کرتے ہو (محض) تفاخر اور فضول مشغلوں کے لئے

129

اور تم (تالابوں والے) مضبوط محلات بناتے ہو اس امید پر کہ تم (دنیا میں) ہمیشہ رہو گے

130

اور جب تم کسی کی گرفت کرتے ہو تو سخت ظالم و جابر بن کر گرفت کرتے ہو

131

سو تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو

132

اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی جو تم جانتے ہو

133

اس نے تمہاری چوپایہ جانوروں اور اولاد سے مدد فرمائی

134

اور باغات اور چشموں سے (بھی)

135

بیشک میں تم پر ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں

136

وہ بولے: ہمارے حق میں برابر ہے خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں نہ بنو (ہم نہیں مانیں گے)

137

یہ (اور) کچھ نہیں مگر صرف پہلے لوگوں کی عادات (و اطوار) ہیں (جنہیں ہم چھوڑ نہیں سکتے)

138

اور ہم پر عذاب نہیں کیا جائے گا

139

سو انہوں نے اس کو (یعنی ھود علیہ السلام کو) جھٹلا دیا پس ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا، بیشک اس (قصہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے

140

اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے

141

(قومِ) ثمود نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا

142

جب ان سے ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو

143

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں

144

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

145

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کچھ معاوضہ طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف سارے جہانوں کے پروردگار کے ذمہ ہے

146

کیا تم ان (نعمتوں) میں جو یہاں (تمہیں میسر) ہیں (ہمیشہ کے لئے) امن و اطمینان سے چھوڑ دیئے جاؤ گے

147

(یعنی یہاں کے) باغوں اور چشموں میں

148

اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کے خوشے نرم و نازک ہوتے ہیں

149

اور تم (سنگ تراشی کی) مہارت کے ساتھ پہاڑوں میں تراش (تراش) کر مکانات بناتے ہو

150

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

151

اور حد سے تجاوز کرنے والوں کا کہنا نہ مانو

152

جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور (معاشرہ کی) اصلاح نہیں کرتے

153

وہ بولے کہ تم تو فقط جادو زدہ لوگوں میں سے ہو

154

تم تو محض ہمارے جیسے بشر ہو، پس تم کوئی نشانی لے آؤ اگر تم سچے ہو

155

(صالح علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ نشانی) یہ اونٹنی ہے پانی کا ایک وقت اس کے لئے (مقرر) ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی کی باری ہے

156

اور اِسے برائی (کے ارادہ) سے ہاتھ مت لگانا ورنہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تمہیں آپکڑے گ

157

پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں (سو اسے ہلاک کر دیا) پھر وہ (اپنے کئے پر) پشیمان ہو گئے

158

سو انہیں عذاب نے آپکڑا، بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے

159

اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے

160

قومِ لوط نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا

161

جب ان سے ان کے (قومی) بھائی لوط (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو

162

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں

163

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو

164

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے

165

کیا تم سارے جہان والوں میں سے صرف مَردوں ہی کے پاس (اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنے کے لئے) آتے ہو

166

اور اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لئے پیدا کی ہیں، بلکہ تم (سرکشی میں) حد سے نکل جانے والے لوگ ہو

167

وہ بولے: اے لوط! اگر تم (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تم ضرور شہر بدر کئے جانے والوں میں سے ہو جاؤ گے

168

(لوط علیہ السلام نے) فرمایا: بیشک میں تمہارے عمل سے بیزار ہونے والوں میں سے ہوں

169

اے رب! تو مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کام کے وبال) سے نجات عطا فرما جو یہ کر رہے ہیں

170

پس ہم نے ان کو اور ان کے سب گھر والوں کو نجات عطا فرما دی

171

سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی

172

پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا

173

اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی سو ڈرائے ہوئے لوگوں کی بارش کتنی تباہ کن تھی

174

بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے

175

اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے

176

باشندگانِ ایکہ (یعنی جنگل کے رہنے والوں) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا

177

جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو

178

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں

179

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو

180

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے

181

تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو

182

اور سیدھی ترازو سے تولا کرو

183

اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو

184

اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تم کو اور پہلی امتوں کو پیدا فرمایا

185

وہ کہنے لگے: (اے شعیب!) تم تو محض جادو زدہ لوگوں میں سے ہو

186

اور تم فقط ہمارے جیسے بشر ہی تو ہو اور ہم تمہیں یقیناً جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں

187

پس تم ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو اگر تم سچے ہو

188

(شعیب علیہ السلام نے) فرمایا: میرا رب ان (کارستانیوں) کو خوب جاننے والا ہے جو تم انجام دے رہے ہو

189

سو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا پس انہیں سائبان کے دن کے عذاب نے آپکڑا، بیشک وہ زبردست دن کا عذاب تھا

190

بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے۔

191

اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے

192

اور بیشک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے

193

اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے

194

آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں

195

(اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے

196

اور بیشک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے

197

اور کیا ان کے لئے (صداقتِ قرآن اور صداقتِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) یہ دلیل (کافی) نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء (بھی) جانتے ہیں

198

اور اگر ہم اسے غیر عربی لوگوں (یعنی عجمیوں) میں سے کسی پر نازل کرتے

199

سو وہ اس کو ان لوگوں پر پڑھتا تو (بھی) یہ لوگ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے

200

اس طرح ہم نے اس (کے انکار) کو مجرموں کے دلوں میں پختگی سے داخل کر دیا ہے

201

وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں

202

پس وہ (عذاب) انہیں اچانک آپہنچے گا اور انہیں شعور (بھی) نہ ہوگا

203

تب وہ کہیں گے: کیا ہمیں مہلت دی جائے گی

204

کیا یہ ہمارے عذاب میں جلدی کے طلب گار ہیں

205

بھلا بتائیے اگر ہم انہیں برسوں فائدہ پہنچاتے رہیں

206

پھر ان کے پاس وہ (عذاب) آپہنچے جس کا ان سے وعدہ کیا جار ہا ہے

207

(تو) وہ چیزیں (ان سے عذاب کو دفع کرنے میں) کیا کام آئیں گی جن سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے

208

اور ہم نے سوائے ان (بستیوں) کے جن کے لئے ڈرانے والے (آچکے) تھے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا

209

(اور یہ بھی) نصیحت کے لئے اور ہم ظالم نہ تھے

210

اور شیطان اس (قرآن) کو لے کرنہیں اترے

211

نہ (یہ) ان کے لئے سزاوار ہے اور نہ وہ (اس کی) طاقت رکھتے ہیں

212

بیشک وہ (اس کلام کے) سننے سے روک دیئے گئے ہیں

213

پس (اے بندے!) تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پوجا کر ورنہ تو عذاب یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا

214

اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے

215

اور آپ اپنا بازوئے (رحمت و شفقت) ان مومنوں کے لئے بچھا دیجئے جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے

216

پھر اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میں ان اعمالِ (بد) سے بیزار ہوں جو تم انجام دے رہے ہو

217

اور بڑے غالب مہربان (رب) پر بھروسہ رکھیے

218

جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لئے) قیام کرتے ہیں

219

اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے

220

بیشک وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے

221

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں

222

وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پر اترا کرتے ہیں

223

جو سنی سنائی باتیں (ان کے کانوں میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں

224

اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں

225

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادئ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)

226

اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں

227

سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیں